سر آغا خان سوم سماجی مصلح تھے، 200 سے زائد اسکول قائم کیے



سرآغاخان سوم سلطان محمد شاہ کو25 سال کی عمر میں امپیریل لیجسلیٹو کونسل کا رکن نامزد کر دیا گیا۔ 
سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم ایک سماجی مصلح اور برصغیر میں مسلمان مرد و خواتین کی تعلیمی ترقی کے زبردست حامی تھے۔
ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کے 48 ویں وراثتی امام سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم 2نومبر 1877کو پیدا ہوئے۔ ان کے طویل عوامی کیریئر کی بے شمار جہتیں تھیں۔ وہ ایک سماجی مصلح تھے جن کو دیہات کی غربت دور کرنے اور معاشرے میں خواتین کو بہتر مقام دینے کا سب سے زیادہ خیال تھا۔ وہ جدید علوم کی تعلیم پر زور دیتے تھے اور برصغیر میں مسلمان مرد و خواتین کی تعلیمی ترقی کے زبردست حامی تھے۔ انہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں 200سے زیادہ سکول قائم کئے جن میں سے پہلا آغا خان اسکول گوادر میں کھولا گیا جو کہ اب پاکستان کا علاقہ ہے۔ انھوں نے جس تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی اس کو آج ان کے پوتے شہزادہ کریم آغا خان‘ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک (اے کے ڈی این) کے زیراہتمام ترقی کے آفاق سے ہمکنار کر رہے ہیں۔
ہزہائی نس آغا خان نے بی بی سی کے رپورٹر کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ’’میرا یقین ہے کہ اسلام کا اصل پیغام یہ ہے کہ ہم معاشرے میں عورت کو کس قدر زیادہ عزت و احترام کا مقام دیتے ہیں… اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات درست ہے کہ تعلیم عورتوں کے مقام و مرتبے کو بلند کرتی ہے‘‘۔ شہزادہ کریم آغا خان کی یہ بات سر سلطان محمد شاہ کے تعلیم نسواں کے نظریے سے یکسر مختلف نہیں جنہوں نے 1945 میں کہا تھا کہ ’’ذاتی طور پر میرا یہ اعتقاد ہے کہ اگر میرے 2 بچے ہوں‘ ایک لڑکا اور ایک لڑکی اور میرے پاس صرف ایک کی تعلیم کے وسائل ہوں تو میں لڑکی کو اعلیٰ تعلیم دلوانے میں قطعاً کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کروں گا۔‘‘برصغیر کے مسلمانوں کیلیے سر آغا خان کا سب سے عظیم کارنامہ علیگڑھ یونیورسٹی کے قیام میں ان کا کردار تھا۔ سر آغا خان نے سرسید کے خواب کو پورا کرنے کی خاطر یونیورسٹی کے قیام کیلیے فنڈز اکٹھا کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ انھوں نے مستحق طلبہ کیلیے نقد وظائف جاری کیے اور ان کی بیرون ملک تعلیم کے بھی انتظامات کیے۔
یہ وظائف آغا خان اسکالرشپ کے ٹرسٹیز کے زیراہتمام جاری کیے جاتے تھے۔ مسلمانوں کی تعلیم کیلیے سر آغا خان کے پر جوش خلوص کو دیکھتے ہوئے انھیں صرف 25 سال کی عمر میں امپیریل لیجسلیٹو کونسل کا رکن نامزد کر دیا گیا۔انڈین مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی خاطر آغا خان نے قانون سازی میں مسلمانوں کی علیحدہ نمائندگی کیلیے ایک طویل اور کامیاب مہم چلائی۔ یکم اکتوبر 1906ء میں انھوں نے35 نامور مسلمانوں کے ایک ممتاز وفد کی شملہ میں قیادت کی اور برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے ایک یادداشت پیش کی۔ اپنے تاریخی خطاب میں انھوں نے برطانوی وائسرائے پر زور دیا کہ مسلمانوں کو ایک جداگانہ قوم کے طور پر تسلیم کیا جائے اور ان کی تکریم کی جائے نیز انھیں لوکل باڈیز اور قانون ساز کونسل دونوں میں نمائندگی دی جائے۔ سر آغا خان کی قیادت میں شملہ ڈیپوٹیشن کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں کی کامیابی سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔
یہیں مسلمان رہنمائوں کو ایک علیحدہ پلیٹ فارم کی ضرورت کا احساس ہوا اور اسی کے نتیجے میں مسلمانوں کی پہلی سیاسی تنظیم آل انڈیا مسلم کا 1906 کا قیام عمل میں آیا اور سر آغا خان کو اس کا اولین صدر منتخب کیا گیا جو 1906 سے 1913 تک مسلم لیگ کے سربراہ رہے۔ سر آغا خان کو لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس کیلئے مسلمانوں کے ترجمان کے طور پر مدعو کیا گیا جہاں علامہ اقبال ؒنے مسلمانوں کیلیے سر آغا خان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے کانفرنس کے روبرو یہ مطالبات آغا خان کی رہنمائی میں پیش کئے ہیں جنہیں ہم سب دل سے سراہتے ہیں اور برصغیر کے مسلمان ان سے محبت کرتے ہیں‘‘۔سر آغا خان سوم کو تخفیف اسلحہ کی کانفرنس میں انڈیا کی نمائندگی کا اعزاز بھی حاصل ہوا اور انہیں متفقہ طور پر لیگ آف نیشنز کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا جسے بعدازاں اقوام متحدہ کا نام دیدیا گیا۔ آغا خان سوم کی قیادت میں برصغیر پاک و ہند میں سماجی اور اقتصادی ترقی کیلیے بیشمار ادارے قائم کیے گئے اور مرحوم آغا خان کے بقول ’’یہ تمام ادارے انسانیت کی فلاح کیلیے قائم کیے گئے‘‘۔ ان میں ڈائمنڈ جوبلی ٹرسٹ اور پلاٹینم جوبلی انویسٹمنٹ لمیٹڈ بھی شامل ہیں جن کے زیراہتمام بہت سی کوآپریٹو سوسائٹیوں کا وجود عمل میں آیا۔
ڈائمنڈ جوبلی سکول برائے طالبات دور دراز کے شمالی علاقوں میں کثیر تعداد میں قائم کیے گئے جو کہ اب پاکستان میں شامل ہیں۔ آج آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے زیراہتمام سیکڑوں کی تعداد میں آغا خان سکول قائم ہیں جن میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد 38 ہزار سے متجاوز ہے۔ ان اسکولوں میں پاکستان بھر میں16ہزار اساتذہ درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ آغا خان ہیلتھ سروس کے تحت 120ہیلتھ یونٹ کام کر رہے ہیں۔ نیز آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں حفظان صحت کی خدمات کے علاوہ میڈیسن اور نرسنگ کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ سر سلطان محمد شاہ 11جولائی 1957 کو انتقال کر گئے۔ انھیں مصر کے شہر اسوان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کے پوتے شہزادہ کریم آغا خان چہارم نے اپنے دادا کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا ’’میرے دادا انتہائی نادر روزگار شخصیت تھے اور ان کی بے پناہ صفات میں سے ایک نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ ہے کہ وہ ماضی کو ایک کتاب تصور کرتے تھے جس کا مطالعہ وہ بار بار کرتے رہتے تھے اور مستقبل کو بھی وہ آرٹ کا لٹریری کام سمجھتے تھے جس پر وہ گہرے تفکر اور ارتکاز کے ساتھ غور کرتے تھے۔ بیشمار لوگوں نے ان کی رحلت کے بعد مجھے بتایا کہ وہ کس طرح مستقبل کو بھی پڑھ لیا کرتے تھے اور یہ یقیناً ان کی عظیم قوت کا سرچشمہ تھا۔ ‘‘

2 comments: