ہزہائی نس پرنس کریم آغاخان کی زندگی ایک مختصر جائزہ اسلام امن کا مزھب ھے،
جولائی 11 (پھسو ٹا ئمز) اسلام امن کا مزھب ھے، جس کا نقطہ نظریہ یہ ھے کہ اسلام ہمیں رواداری، مساوات، حلیمی، بھائی چارہ اور رحم دلی کا ررس دیتی ھے، اور ان سب سے بڑھ کر انسانیت کی بقاہ اور فلاح بہبود کیئے کام کرنا ھے۔ اس وقت مسلم دُنیا کو درپیش چیلنجز اور دیگر سوشل اختلافات کا سامنہ ھے وہی آپس کی نفرتیں اُس سے کئی زیادہ بڑھ کر ھے، اسماعیلی جماعت ایک ایسی جماعت جو گزشتہ 1400سو سالوں سے امامت کی رسی تھامے ھوئے اج بھی اُسی عقیدے کی بنیاد پراپنی مزہبی فرائض کو انجام دیئے آ رہیں ہیں۔ جس کی بیناد سرورِکائنات رحمت دوعالم، حُضواقدس آخری نبی حضرتِ محمد مصطفیٰ( صلی اللہ علیِہ وآلہ وسلم) نے غدیر خم کے مقام پر ممبرپر کھڑے ھوکرحضرت علی کا ہاتھ پکڑکر فرمایا”جس کا میں مولا ھوں اُس کا علی مولاھے” یعنی شِعیان علی کے عقیدے کے مطابق جہاں پیغمبر اسلام کی مشین آنحضرت صلم پر ختم ھوئی ، اُس کے بعد اِمامت کا سلسلہ حضرتِ علی سے شروع ھو کر آج تک شیعہ اِمامِی اسماعیلی مسلمان عقیدے کی بنیاد پر اب تک 48 امامان گزرچکے ہیں، اورموجودہ امام مولاناشاہ کریم الحُسینی حاضِر امام اسماعیلی مسلم کے 49 وے امام کی حثیت سے دنیا بھر کی اسماعیلی جماعت کو رہنمائی اور ہدایت دیتی آرہی ھے۔ ہزہائی نس پرنس کریم آغاخان 13 دسُمبر 1936 کو سویٹزرلینڈ کے مشہور شہر جنوا میں پیداھوئے آپ پرنس علی سلمان خان کے فرزند اورامام سرسلطان محمد شاہ آغاخان( سویم) کے پوتھے ہیں۔ برصغیرپاک ؤہند کی تقسیم کے بعد مسلمانوں کی حالات زندگی کافی تشویش ناک تھی اور امام سرسلطان محمد شاہ نے ان تمام چیلنچز کے لیے ایسے لیڈر کی ضرورت کو محسوس کیا جو دورجدید کے عین مطابق ان تمام چیلنجز اورانسانیت کی فلاح ؤ بہبود کے لئے کام کرسکیں، اور بلاآخر سرسلطان محمد شاہ کی وِصال کیے بعد آپ کے پوتھے شاہ کریم الحُسینی 20 سال کی عمر میں 11 جولائی 1957 کو اسماعیلی مسلم کے 49 ویں امام کی حثیت سے تخت امامت پر جلوہ افروز ھوہیں۔۔
بتدائی طور پر، ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان چہارم ریاضی، کیمیات: کیمیات سائنس اور جنرل سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، آپ نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ شروع کیاجس میں اسلامی فرقے اور تصوف کا بغور مطالعہ کیا۔ جب آپ پر امامت کی اہم زمہ داری سونپی گئی آپ نے اسی دوران ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجوییشن اوربی اے ہانرز اسلامک تاریخ کی ڈگری حاصل کی۔ 1957-1958 میں جہان مسلیم دنیا اور دیگر غیر مسلیم برادری کردرمیان دُوری کو ختم کرنے اورلوگوں کی معیارزندگی کو بہتربنانے میں آپ نے اہم کردار اداکیا،جہان جنوبی ایشیا اور مشرقی افریقہ میں نسلی طورپر کشیدہ ماحول عرُوج پر تھی۔1972 میں جب یوگینڈا میں صدر لودی امین کی حکومت نے فرمان جاری کیا کہ جنوبی ایشیاٰ کے باشندوں اور نزاری اسماعیلی کو 90 دن کے اندر اس ملک چھوڈنے کی محلت دی اُس وقت ہزہائی نس پرنس کریم آغاخان نے کینیڈین وزیراعظم پیری ترودیو سے ان تمام خاندانوں کو کینیڈا میں آبادکاری کی درخواست دی جسے وزیراعظم نے قبول کر کے اپنے ملک کے دروازے کھولنے پر اتفاق کیا اج کینیڈا دنیا کی سب سے تیز ترقیافتہ ملکوں میں شمار کیا جاتاھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی فلاح ؤبہبود کیئے آپ نے اپنی گراں قدر خدمات اور کوشیش تیز کردی اور آغاخان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کی بیناد رکھی، جو دنیا کے تقریبا 35 ملکوں میں غربت اور انسانی زندگی کا معیاربہتر بنانے میں تقریبا 80،000 ورکرز اے کے ڈی آین کے مختلف اداروں کے ساتھ منسلک ھے، جس میں آغاخان فاوڈیشن، آغاخان ھلتھ سرویسز، آغاخان پلانگ اینڈ بلڈنگ سرویسز، آغاخان ایکنومک سرویسز،آغاخانایجنسی فار مائیکروفائینینس، کیے علاوہ فوکس ( اف او سی یو ایس ) قابل زکرھے جس کی براہ راست آپ خود نگرانی کرتیں ہیں۔ اگر ہم گلگت بلتستان کی ترقی میں ہزہائی نس آغاخان کی کردارکو دیکھیں جو بلکل واضح ھے، 1960 میں جب پہلی دفعہ آپ گلگت بلتستان ہنزہ تشریف لائے تو آپ نے خود یہاں لوگوں کی حالات زندگی دیکھ کر کافی مائوس اورپریشان ھوہیں جس کے بعد آپ رہنمائی اور ہدایت کی روشنی میں ایک جامعہ حکمت عملی تیار کی اور1980 میں آغاخان فاونڈیشن نے گلگت بلتستان میں آغاخان رولراسپورٹ پروگرام، آغاخان ھلتھ سرویسز اور دیگر فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی جو اج بھی علاقے کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کررہیں ہیں۔۔ غرض یہ کی ہزہائی نس کی خدمات نہ صرف اسماعیلی جماعت تک محدود ھے بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی لوگوں کی فلاح ؤبہبود کے لئیے سرگرمِ عمل ہیں، آپ کے اس خدمات کو سہراتے ھوے دنیا کے بےشمار خطابات، اعزازات اور القاب سے آپ کو نوازا گیا، جس میں 1936 تا 1957 آپ کو پرنس کریم آغاخان اور 1957 سے اب تک ہزہائی نس دی آغاخان چہارم اور 1959 سے1979 تک ہزرائل ہائی نس دی آغاخان چہارم،1977 سے 2009 تک کی اعدادؤشمار کے مطابق دُنیا کے 20 ممالک نے آپ کو اپنی قومی اعزازات سے نوازہ، دُنیا کی 19 بہترین یونیورسٹیوں نے آپ کواعزازی ڈگریاں دےدی اور دُنیا کے 21 ممالک نے 48 ایواڈ آپ کو اپکی شانداراور گراں قدر خدمات اور اسانیت کی فلاح ؤبہبود کے لئیے کام کرنے پر نوازہ گیا۔اخر میں یہ کہ ایک ایسی حستی کے بارے میں لکھنا جس کا شجرہ نصب مولاکائنات اللہ تعالیٰ کے آخری رسولِ پاک سے جاملتا ھو گویا سورج کو چراغ دیکھانے کے مترادف ھے۔ ہزہائی نس کی زندگی تمام انسانیت کے لئیے مشعل راہ ھے، اللہ پاک ہم سب کا حامی و ںاصر ھو۔۔۔۔
This comment has been removed by the author.
ReplyDelete